ہندوستان کی سرزمین اپنی تہذیبی، مذہبی اور ثقافتی رنگا رنگی کے باعث دنیا بھر میں منفرد شناخت رکھتی ہے۔ یہاں مختلف مذاہب، زبانوں اور تہذیبوں نے صدیوں تک ایک ساتھ رہ کر ایسا مشترکہ تمدنی ورثہ تخلیق کیا جو آج بھی انسانیت کی ہم آہنگی کی علامت ہے۔ مسلمانوں نے اس ورثے کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے فنِ تعمیر، علم و ہنر اور روحانی اقدار نے ہندوستان کی تہذیب کو نیا وقار عطا کیا۔ مگر افسوس کہ یہی عظیم ورثہ، جو قومی فخر کی علامت ہونا چاہیے تھا، آج غفلت، زوال اور تباہی کے سائے میں ہے۔
ہندوستانی آثارِ قدیمہ کے محکمے کے مطابق ملک بھر میں چھ ہزار سے زیادہ اسلامی مقامات تاریخی ورثے کے طور پر درج ہیں، جب کہ ہزاروں دیگر مساجد، مقابر اور مزارات اب تک سرکاری فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں۔ دہلی، آگرہ، لکھنؤ، حیدرآباد، بیجاپور، گلکنڈہ اور بنگال سے لے کر کیرالہ تک، ہر خطے میں مسلم حکمرانوں کے دور کی یادگاریں آج بھی اپنی شان کے ساتھ ایستادہ ہیں۔ دہلی میں لودھی گارڈن کی مسجد ہو یا آگرہ کا تاج محل، ہر عمارت اپنے زمانے کی فنی مہارت کا مظہر ہے۔ مگر ان میں سے بیشتر یادگاریں اب تجاوزات، لاپرواہی اور ماحولیاتی اثرات سے متاثر ہو رہی ہیں۔ دہلی میں کئی تاریخی مساجد کو “سرکاری زمین پر قبضے” کے الزامات کے تحت مسمار کیا جا چکا ہے، جن میں اخونجی مسجد کی تباہی ایک افسوسناک مثال ہے۔
تاج محل کی سفید سنگِ مرمر فضائی آلودگی سے ماند پڑ رہی ہے، بیجاپور اور حیدرآباد کی عظیم مساجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اور گولکنڈہ قلعے کی دیواریں بارش اور رطوبت سے کمزور ہو چکی ہیں۔ یہ تمام نشانیاں اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ اسلامی فنِ تعمیر کی حفاظت کے لیے مؤثر حکمتِ عملی موجود نہیں۔ فنڈز کی کمی، وقف اراضی پر قبضے، سیاسی کشیدگی اور عوامی شعور کی کمی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہ لاپرواہی صرف تاریخی ورثے کی نہیں بلکہ ہندوستانی معاشرتی ہم آہنگی کی بھی کمزوری ہے۔ اسلامی فنِ تعمیر وہ نادر امتزاج تھا جس نے فارسی، ترک اور ہندی ذوق کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ اس کا زوال نہ صرف ثقافتی نقصان ہے بلکہ سیاحت اور قومی شناخت کے لیے بھی خطرہ ہے۔
پھر بھی کچھ امید باقی ہے۔ وزارتِ سیاحت کے “Adopt a Heritage” جیسے منصوبے اور INTACH جیسی تنظیموں کی مرمت کی کاوشیں قابلِ ذکر ہیں، اگرچہ یہ کوششیں محدود پیمانے پر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جامع قومی پالیسی کے تحت تمام تاریخی اسلامی مقامات کا ڈیجیٹل ریکارڈ تیار کیا جائے اور عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ یہ ورثہ کسی ایک مذہب کا نہیں، بلکہ ہندوستانی شناخت کا حصہ ہے۔
ہندوستان میں مساجد اور اسلامی آثار کی نظراندازی صرف مسلمانوں کے ماضی کو نہیں بلکہ ہندوستان کی اجتماعی یادداشت کو متاثر کر رہی ہے۔ تاج محل کا ہر سنگ، دہلی کی ہر مسجد کا گنبد اور حیدرآباد کی ہر مینار اس مشترکہ انسانی تہذیب کی علامت ہے جس نے صدیوں تک مختلف مذاہب کو جوڑ کر رکھا۔ اس ورثے کا تحفظ مذہبی نہیں بلکہ قومی ذمہ داری ہے — ایسا عمل جو ہندوستان کے کثیرالثقافتی تشخص کے احترام اور انسانیت کی مشترکہ میراث کے اعتراف کا مظہر ہے۔