رمضان کے بابرکت مہینے میں لوگ صرف قرآن کریم ہی پر توجہ نہیں دیتے بلکہ ایک خاص روحانی کیفیت میں دین کو سمجھنے اور اس کے بارے میں زیادہ سیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر قرآنِ مجید اسلامی شریعت کا پہلا اور بنیادی ماخذ ہے، تو سنتِ نبویہ ﷺ اس کا دوسرا بڑا سرچشمہ ہے، جہاں سے قرآنی احکام کے بعد فقہی اور شرعی اصول و ضوابط اخذ کیے جاتے ہیں۔
بہت سے ایسے احکام ہیں جن کی تفصیلات قرآن میں نہیں ملتیں، اور وہاں سنتِ رسول ﷺ ہی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم فرمایا، تاکہ انسان وحی کے دونوں سرچشموں سے راہنمائی حاصل کرے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى، مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى، وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى" (قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے ۔ کہ تمہارے ساتھی نے نہ راہ گم کی ہے اور نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے) [النجم: 1-4]۔
اس کے علاوہ قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، مثلاً:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ" يعنى: (اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی) ۔ "وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ" يعنى: (اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیاہے)۔
سنت پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کی محبت اور مغفرت کا ذریعہ بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
"قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ" يعنى: (کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔)
یوں سنتِ نبویہ ﷺ دراصل ایمان اور عمل دونوں کا وہ ستون ہے جس کے بغیر اسلام کی عمارت مکمل نہیں ہو سکتی، اور اس کے درست فہم اور اطاعت کے بغیر بندہ نہ اپنے رب کی رضا حاصل کر سکتا ہے، نہ اس کی رحمت کے دروازے تک پہنچ سکتا ہے۔
درحقیقت، سنتِ نبوی ﷺ پر عمل کرنا قرآن ہی کی پیروی ہے۔ اگر ہم احادیثِ نبویہ کا جائزہ لیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور ان کی سنت پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے، تو اس میں طویل وقت درکار ہوگا۔ مگر آج ہم اختصار کے ساتھ چند اہم نصیحتیں پیش کرنا چاہتے ہیں جو سنتِ مطہرہ کے ساتھ صحیح طرزِ عمل اپنانے میں مددگار ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ صحیح سنت کبھی قرآنِ کریم کے خلاف نہیں ہو سکتی۔
اس کی وجہ بالکل واضح ہے — سنت دراصل قرآن کے مضمر معانی اور مقاصد کی وضاحت کرتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمايا ہے: "وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ" يعنى: (یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں ، شاید کہ وہ غور و فکر کریں) [النحل: 44]۔ اور ایک اور مقام پر فرمایا: "وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ" يعنى: (اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور یہ ایمان داروں کے لئے راہنمائی اور رحمت ہے)[النحل: 64]
یعنی سنت دراصل قرآنِ کریم کی تشریح و توضیح ہے، اس لیے اس کا قرآن سے اختلاف ممکن ہی نہیں۔
اور اگر کبھی کسی روایت اور قرآن میں بظاہر تضاد محسوس ہو تو اس کی دو ہی ممکنہ وجوہات ہوتی ہیں:
حدیث ضعیف و غیر ثابت ہے، يا فہم و تعبیر میں خطا واقع ہوئی ہے۔ یہی بات ہمیں سنت کے فہم اور اس کے صحیح منہج کی دوسری اہم اساس کی طرف لے جاتی ہے، جس پر ہم آگے روشنی ڈالیں گے۔
دوسرى بات یہ ہے کہ سنت اور قرآن میں امتیاز اور صحیح و ضعیف احادیث کی پہچان
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سنت کا مقام قرآنِ کریم کے برابر نہیں ہے۔
قرآن تو وحیِ متلو ہے جو حرف بہ حرف محفوظ اور قطعی الثبوت ہے، جبکہ احادیثِ نبویہ مختلف درجات رکھتی ہیں — ان میں صحیح بھی ہیں، حسن بھی، ضعیف بھی، بلکہ بعض من گھڑت (موضوع) روایات بھی پائی جاتی ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ ہر روایت صحیح نہیں ہوتی، اور بعض کمزور یا جھوٹی احادیث کو کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔ ہمیں صرف صحیح اور حسن احادیث پر ہی نہیں، بلکہ ضعیف احادیث کے بارے میں بھی علم ہونا چاہیے، کیونکہ ضعیف روایت سے عقائد میں استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر، "افتراقِ امت" والی حدیث ضعیف ہے، اور اس بنیاد پر کسی گروہ کو کافر قرار دینا یا عقیدہ بنانا بالکل غلط اور انتہاپسندانہ رویہ ہے، جیسا کہ بعض متشدد عناصر نے کیا۔
یہ دراصل علمِ حدیث کا نہایت دقیق اور عمیق میدان ہے.، جس میں سنت کی توثیق، تدوین اور تنقید کے مناہج پر طویل مطالعہ درکار ہے۔ اہلِ علم نے اس باب میں حیرت انگیز کام کیا ہے — سنت کی جمع و تدوین عہدِ نبوی ہی میں شروع ہو چکی تھی،
اور بعد میں اسماء الرجال، جرح و تعدیل، اور اصولِ روایت و درایت جیسے عظیم علوم وجود میں آئے۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ احادیثِ رسول ﷺ کی تحقیق و توثیق کا ایسا منہج دنیا کی کسی قوم کے کسی انسانی کلام کے لیے نہیں اپنایا گیا، جیسا کہ امتِ مسلمہ نے رسول اللہ ﷺ کے فرامین کے لیے اختیار کیا۔
اسی مقصد کے لیے مختلف کتبِ حدیث مدوّن ہوئیں — بعض نے صرف صحیح احادیث جمع کیں جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم،
اور بعض نے صحیح و ضعیف دونوں روایات شامل کیں جیسے سنن اور مسند کی کتب،
بلکہ بعض اہلِ علم نے تو صرف ضعیف یا موضوع احادیث جمع کیں تاکہ لوگ ان سے خبردار رہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علماءِ حدیث اور ماہرینِ سنت کا کردار سامنے آتا ہے — وہی اس عظیم علم (حدیثِ شریف و علومِ حدیث) کے امین اور رہنما ہیں۔
تيسرى بات یہ ہے کہ سنتِ نبوی کی انتقائی (Selective) تلاوت سے پرہیز
سنتِ نبویہ ﷺ کے مطالعے میں انتقائی رویّہ اختیار کرنے سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔
یہی وہ غلطی ہے جو انتہا پسند تنظیمیں بار بار دہراتی ہیں۔ وہ صرف وہی احادیث پڑھتی اور پیش کرتی ہیں جو ان کے نظریے اور کاروائیوں کے لیے جواز پیدا کریں — مثلاً وہ اکثر غزوات اور فتنوں سے متعلق احادیث ہی بیان کرتی ہیں تاکہ اپنی جارحانہ اور مجرمانہ سرگرمیوں کو درست ثابت کر سکیں۔ مثال کے طور پر، وہ ایک حدیث کا اکثر حوالہ دیتے ہیں: "آمُرُكُم بخمسٍ، اللهُ أمرَني بهنَّ: السَّمعِ، والطَّاعةِ، والجِهادِ، والهِجرةِ، والجماعةِ"۔ يعنى: میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں، جن کا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: سننا، اطاعت کرنا، جہاد کرنا، ہجرت کرنا، اور جماعت سے وابستہ رہنا۔" یہ حدیث سنن ترمذی میں مروی ہے۔
لیکن یہی لوگ صحیح بخاری میں موجود اس حدیث کا کبھی ذکر نہیں کرتے، جس میں رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "میں تمہیں نماز، سچائی، پاکدامنی، وعدہ پورا کرنے اور امانت ادا کرنے کا حکم دیتا ہوں۔"
پہلی حدیث ان کے نظریے کو تقویت دیتی ہے، حالانکہ اس کا صحیح مفہوم ان کے فہم سے بالکل مختلف ہے،
مگر وہ اسی کو اپنے مقصد کے لیے توڑ مروڑ کر استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف، دوسری حدیث ان کے طرزِ عمل کی نفی کرتی ہے، اس لیے وہ کبھی اس کا ذکر نہیں کرتے۔
اسی لیے ہم شدید تنبیہ کرتے ہیں کہ سنتِ نبویہ ﷺ کے مطالعے میں انتقائی انداز اختیار نہ کیا جائے۔
احادیث کو سیاق و سباق کے ساتھ، اور مجموعی تعلیماتِ اسلام کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔
یہ بات ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ دینی علوم میں تخصص اور اہلِ علم کی طرف رجوع نہایت ضروری ہے۔
ہر بات سن کر قبول کر لینا، یا غیر مستند ذرائع سے علم حاصل کرنا، خطرناک اور گمراہ کن ہو سکتا ہے۔
اختتامیہ
سنتِ نبویہِ مطہَّرہ شریعت کے مصادر میں دوسرا اور معتبر ذریعہ ہے۔ اس پر عمل دراصل قرآنِ مجید کی اتباع ہی ہے۔ ورنہ قرآن میں وہ بہت سی اَشيا کہاں موجود ہیں جن کے ذریعے سنت کی ضرورت واضح ہوتی ہے — مثلاً روزانہ چار مرتبہ اٹھنے والا اذان، یا نماز کے رکعات کی تعداد، یا زکاة کا نصاب، اور اسی طرح رضاع، نکاح، بیع و شِراء کے بہت سے مسائل جن کی تفصیلات قرآن میں صریحاً موجود نہیں ملتیں۔ اسی لیے سنت کی حجیت اور اس کی پیروی دراصل قرآن کی بات کی تکمیل ہے، تاکہ شریعت کے امور عملی شکل اختیار کریں۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی ہوش کے ساتھ جاننا چاہیے کہ بعض روایات ضعیف یا موضوع ہو سکتی ہیں اور بعض اوقات غلط استعمال کے ذریعہ دین کو تشدد یا جہالت کے قالب میں پیش کیا جاتا ہے۔
لہٰذا لازم ہے کہ ہمارے پاس مکمل معلومات ہوں، اور جب کسی روایت پر شک ہو — یا کوئی شخص ہمیں سنت کے چند مقاطع سے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرے — تو ہم اہلِ علم و تخصص سے رجوع کریں اور ان سے روایت کی درجہ بندی معلوم کریں۔
کیونکہ سنتِ نبوی ﷺ کا مقصد بھی وہی ہے جو قرآنِ مجید کا ہے — انسانیت کی ہدایت، زمین کی تعمیر و اصلاح، اور خلافتِ ارضی کے نظام کو بہترین انداز میں قائم کرنا۔